پشاور تہکال میں پولیس کا ایک شرمناک (عامر تہکال واقعہ)
السلام علیکم ، آج ہم اس تحریر میں پشاور تہکال میں ہونے والا ایک شرمناک واقعہ جس میں ایک نوجوان شخص کو پولیس نے گرفتاری کے دوران تھانے میں برہنہ کر کے نہ صرف اسکی ویڈیوں بنائی بلکہ اس ویڈیوں کو سوشل میڈیا پر وائرل کر دی کے بارے میں ہیں ۔
یہ واقع کیسے رونما ہوا اور اسکے بعد پولیس اور عوام کا رد عمل کیا سامنے آیا اور اس واقعے کے اصل ذمداران کون ہے اسکے بارے میں اس مختصر سی تحریر میں آگاہی کے طور پر آپ لوگوں کے سامنے کچھ حقائق اور متعلقہ ادراوں کے سامنے کچھ سوالات پیش کرنے کی کوشش کررہا ہوں ،
امید کرتا ہوں آپ لوگوں کو یہ تحریر پسند آئی گی اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہ تحریر ہمارے معاشرے میں سچائی پر مبنی ہے اور آپ کے کسی اپنے کو فائدہ پہنچا سکتی ہے تو ضرور انکے ساتھ شئیر کرے شکریہ ۔
آج سے کچھ دن قبل رفیع اللہ عرف عامرے تہکالے اپنے دوستوں کے ساتھ فیس بک پر لائیو ویڈیوں کے دوران شراب کے نشے میں دھت ہو کر پولس کے خلاف نازیبا ں الفاظ یعنی گالیاں دیتا ہوا نظر آتا ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ پولیس کیا پاکستان میں کوئی بھی ایسا محکمہ یا کوئی شخص نہیں کہ جو اس سے پوچھنے والا ہو۔
جس پر پولیس نے بروقت کاراوئی کرتے ہوئے مجرم کو گرفتار کر کے اس سے معافی نامہ کہ شکل میں ایک ویڈیوں سوشل میڈیا پر جاری کردی جس میں عامر اپنی گناہ پر پیشماں اور شرمسار دکھائی دیا اور پولیس کے تمام اہلکاروں سے معافی طلب کی یاد رہیں کہ فیسبک پر اس ویڈیوں کے وائر ل ہونے کے بعد عوام میں کافی غم و غصے کا اظہا کیا گیا اور پولیس کے حق میں سوشل میڈیا پر مہم بھی چلائی گئی جو معافی نامے والی ویڈیوں کے منظر عام پر آنے کے بعد سافٹ وئر اپڈیٹ Software Update کے نام سے کافی مشہور اور عوام کی جانب سے پولیس کو خاصی پذیرائی حاصل ہوئی ۔
مگر کل یعنی 24 جون 2020 کو ایک اور ویڈیوں منظر عام پر ائی جس میں عامر نامی شخص کو برہنہ کر کےاسکی ویڈیوں بنائی گئی اور اور اسکے بعد اس ویڈیوں کو سوشل میڈیا پر وائیرل کر دی گئی جس نے عوام میں پولیس کے خلا ف شدید غم و غصے کے ساتھ ساتھ ساری ہمدردی کا رُ خ بھی عامر کی طرف مُڑ لیا اور عامر کی حق میں نہ صرف سوشل میڈیا پر بلکہ جگہ جگہ پولیس کے خلاف نعرہ بازی اور مظاہروں کی شکل میں احتجاج کیے گئے جس کے فوراً بعد ہی آئی جی پی کا اس شرمناک واقع میں ملوث پولیس اہلکاروں کو فوری طور پر معطل کرنے اور گرفتار کرنے کا حکم سامنے آیا ۔
معزز سامعین ایک کہاوت ہے کہ ہاتھ کی پانچھ انگلیا برابر نہیں ہوتی بلکل اسی طرح اس واقعے میں ہم تمام پولیس محکمے کو قصور وار نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ یہ بات کسی سے بھی ڈکھی چھپی نہیں کہ اگر آج ہمارے معاشرے میں ہم تھوڑی بہت عزت کی ذندگی گزار رہیں ہے تو یہ انہی پولیس اہلکاروں کی بدولت ہیں جو اپنی ڈیوٹیز پوری ایمانداری کے ساتھ سر انجام دے رہیں ہے اور موقع آنے پر اپنے جان و مال کی پروا کیے بغیر اپنے فرائض پورے کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
مگر پھر بھی اس واقعے کے بعد ہر عام آدمی ان ایماندار اور اپنی ڈیوٹی سے مخلص آفسران سے یہ سوالات کرنا چاہتے ہیں کہ کیا کچھ پولیس اہلکاروں کو معطل یا گرفتار کرنے سے عامر کی عزت واپس آسکتی ہے ؟
کیا ان پولیس اہلکاروں کی سزا واقعی میں یہی ہونی چاہیے ؟
اور یہاں یہ سوال بھی کافی معنی رکھتا ہے کہ کیوں اس کرنل کی بیوی کے سامنے پولیس اہلکار چھپ رہیں کیوں کوئی کاروائی نہیں کی گئی جبکہ وہ عورت منہ پر ایک پولیس اہلکار کے سامنے اسکے آفیسر کے کپڑے اُتروانے کی دھمکی دیتی رہی ۔
اور سب سے اہم سوال کہ یہ شراب ، ہیروئن، افیون ، آئیس وغیرہ کہاں سے آتے ہیں کیا پولیس کو اس کے بارے میں علم نہیں کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ ان تمام نشہ آور چیزو کی خرید و فروخت کن علاقوں میں ہوتی ہے اور بیچنے والا کون ہے ۔
اور آخر میں اپنی سیا سی لوگوں سے اپیل ہے کہ اس واقعے کی بنیاد پر سیاست نہیں بلکہ اسکا حقیقی حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔
اور ہمارے ان غیرت مند پختونوں کو یہ درخواست ہے کہ مستقبل میں اللہ نہ کرے ایسا کوئی واقع ہومگر پھر بھی اس طرح کی ویڈیوز کو پھیلانے کے بجائے اسکو ڈیلٹ کر دیا کرے اور اگر واقعی میں اپنے معاشرے کو اس طرح کی شرمناک واقعات سے صاف سھترا دیکھنا چاہتے ہو تو اٹھائے اپنا موبائل اور احتجاج کی شکل میں ان جگہوں کی ویڈیوز بنا کرنشاندہی کرے جن علاقوں سے یہ تمام نشہ آور مواد نکل کر ہمارے معاشرے میں پھیل کر ہمارے نوجوانوں کی زندگیاں برباد کر رہی ہیں۔