کیا واقعی ضیاء نے ہزاروں فلسطنیوں کو قتل کیا؟

general zia ul haq history in urdu 2020

کیا واقعی ضیاء نے ہزاروں فلسطنیوں کو قتل کیا؟


سن 67 کی عرب اسرائیل جنگ میں اردن اسرائیل کے خلاف فرنٹ لائن پر تھا لیکن مجموعی طور پر اردن سمیت تمام عرب ممالک کو اس جنگ میں شکست ہوگئی تھی۔ 

پاکستان نے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے عربوں کی مدد کی اور نہ صرف اسرائیل کو اس جنگ میں مزید آگے بڑھنے سے روک دیا بلکہ جنگ کے فوراً بعد اپنے کچھ قابل افسروں کو اسرائیل کے نزدیک مختلف اسلامی ممالک میں تربیتی مشن پر بھی بھجوا دیا۔ تاکہ وہ وہاں کی فوجوں کو اسرائیل کے خلاف تیار کر سکیں۔ انہی میں جنرل ضیاء الحق کو اردن ٹریننگ مشن پر بھیجا گیا تھا۔ 

اردن کے اندرونی حالات ان دنوں بے حد خراب تھے اور اسکو اندرونی بغاوت کا سامنا تھا۔ وجہ اسکی یہ تھی کہ اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی بے شمار فلسطینیوں کو علاقہ بدر کیا گیا تھا جن میں سے کم از کم 4 سے 5 لاکھ فلسطینیوں نے اردن میں پناہ لے لی تھی۔  اور حیرت ناک طور پر اردن کے مقامی فلسطینیوں کے ساتھ مل کر انہوں نے اردن میں فلسطینی اکثریت حاصل کرلی۔ 

انکا غصہ اسرائیل پر ابھی باقی تھا جسکا فائدہ مصر ، سعودی عرب اور شام اس طرح اٹھا رہے تھے کہ انکی مالی اور عسکری مدد کے ذریعے انہیں اسرائیل کے خلاف مجاہدانہ کاروائیوں کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ انکی اسرائیل کی الفتح نامی جہادی تنظیم سے قریبی روابط بن گئے۔ جلد ہی اردن میں کئی مسلح فلسطینی گروہ وجود میں آگئے جن پر کسی کا کنٹرول نہیں تھا اور یہ مختلف ناموں سے اردن کے اندر ہی جہادی کاروائیاں کرنے لگے۔ انہوں نے اپنے علاقوں سے اردن حکومت کی رٹ ختم کردی۔

اردن نے بات چیت اور جنگ دونوں طریقوں سے انکو روکنے کی کوشش کی لیکن انکی طاقت بڑھتی چلی گئی۔ کچھ ہی عرصے میں انہوں نے اردن کے کئی شہروں پر قبضہ کر لیا۔ ان لوگوں میں بہت سے جرائم پیشہ افراد شامل ہوگئے جن کو اسرائیل کے خلاف جہاد سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ انہوں نے جگہ جگہ اپنی چیک پوسٹیں قائم کر دیں لوگوں سے زبردستی بھتہ وصول کرنے لگے۔ لوگوں کو اغوا کیا جاتا اور جہاد کے لیے چندے کے نام پر ان سے بھاری تاوان وصول کیا جاتا۔ انکی ان کاروائیوں سے الفتح نے مکمل لاتعلقی کا اظہار کیا اور یاسر عرفات جس کو یہ اپنا لیڈر مانتے تھے اسنے ان سے ہتھیار رکھنے کی اپیل کی جس کو انہوں نے مسترد کر دیا۔ 

انہوں نے الفتح کے بجائے پی ایل او (Palestine Liberation Organization) کا نام اختیار کر لیا اور اردن میں اپنی الگ ریاست قائم کرنے کی جدوجہد شروع کردی۔ مختصر سے عرصے میں انہوں نے اردنی افواج پر کم و بیش 500 چھوٹے بڑے حملے کیے۔ اردنی افواج بھی کاروائیاں کرتی رہی اور کئی بار انکو شکست دے کر ان سے امن معاہدے کیے جس کو یہ کچھ ہی عرصے بعد توڑ دیتے تھے حتی کے اپنے لیڈر یاسر عرفات کے اردن کے شاہ حسین سے کیے گئے معاہدے کو بھی انہوں نے نظر انداز کر دیا۔ آخری جنگ میں انہوں نے مسلسل ایک ہفتے تک اردن کے شہر عمان پر مسلسل چھوٹے میزائلز اور راکٹ فائر کیے جو ان سے واپس چھین لیا گیا تھا زیادہ اموات اسی میں ہوئیں۔ 

حالت یہ ہوگئی کہ ان کے ظلم کو دیکھ کر اردن کی شاہی عدلیہ کا چیف جسٹس چیخ پڑا کہ ”یہ کیسے لوگ ہیں جنہوں نے ایک فوجی جوان کا سر قلم کرنے کے بعد اسکے گھر والوں کے سامنے اس سے فٹ بال کھیلا"

یہ تقریباً ویسے ہی دہشتگرد تنظیم بن گئی تھی جیسے پاکستان کی ٹی ٹی پی۔ 

جنرل ضیاء جو اس وقت برگیڈیر تھے اردن آئے تو حالات بے حد خراب تھے اور اندرونی خانہ جنگی کی وجہ سے انکو اردنی افواج کی اسرائیل کے خلاف تربیت میں سخت مشکلات پیش آئیں۔ 

تب برگیڈیر ضیاء نے ان تمام حالات کا بغور جائرہ لینے کے بعد اردنی افواج کے سامنے ایک ایسا جنگی پلان بنا کر پیش کیا جس سے نہ صرف بغاوت قابو آجاتی بلکہ ملک میں امن بھی قائم ہو سکتا تھا۔ جنرل ضیاء کے بنائے گئے جنگی پلان کے عین مطابق کاروائی کی گئی اور باغیوں پر قابو پا لیا گیا۔ 

کچھ نے لبنان ہجرت کر لی باقیوں نے ہتھیار ڈال دئیے۔ 

اس جنگ میں مجموعی طور پر جنرل ضیاء کی آمد سے پہلے اور بعد میں کل ملا کر آزاد ذرائع کے مطابق 1000 سے 2000 فلسطینی باغی مارے گئے جبکہ فلسطینی ذرائع کے مطابق 4000 سے 5000 لوگ ہلاک ہوئے۔ یاسر عرفات نے باوجود انکی نافرمانیوں کے ان سے اظہار ہمدردی کے لیے مبالغہ ارائی کی اور کہا لگھ بھگ 10،000 لوگ مارے گئے ہیں۔ وجہ یہ تھی کہ انکی الفتح تنظیم کے لیے پی ایل او سے مسلسل رضا کار جنگجو اب بھی مل رہے تھے۔ 

حقیقت صرف یہ تھی کہ فدائین (پی ایل او کے دہشتگرد) اور فلسطینی جہاد کا نام استعمال کر کے اسرائیل کے زیر اثر کچھ گروہ فلسطینی جہاد اور اردن افواج دونوں کو تباہ کرنا چاہتے تھے تاکہ اسرائیل کے لیے معاملہ آسان ہو سکے۔ جیسا کہ آج شام و عراق کو دہشتگردانہ جنگ کر کے ختم کر دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کے ایک مجاہد قلم کار ”ابو ذر غفاری ایک مجاہد ایک صحافی”  کے ایک کالم سے کچھ اقتباسات پیش خدمت ہیں۔

“ یہ وہ وقت تھا جب میں الفتح کے ساتھ تھا اور مجھے جناب یاسر عرفات کی قربت حاصل تھی اس زمانے میں جارج حباش کی جماعت کے فلسطینی فدائین مسافر بردار ہوائی جہازوں کا اغوا کر کے اردن میں اتار کر شاہ حسین کے ساتھ فلسطینی فدائین کے ٹکراؤ کے لیے کوشاں تھے”

 آگے لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” اردن میں اردنی فوج کے ساتھ کام کرنے والے پاکستانیوں پر فلسطینی فدائین گہری نظر رکھےہوئے تھے۔ بریگیڑیر ضیاء کے بارے میں الفتح کے ایک اہم راہنما کرنل ابو معتصم نے بتایا کہ بریگیڈیر ضیاءالحق اور بریگیڈیر عطا محمد دونوں انتہائی محنتی اور فرض شناس ہیں اسکے علاوہ یہ کہ دونوں اتنے عبادت گزار ہیں کہ وہ تہجد بھی باقاعدگی سے پڑھتے ہیں”

 اسکے آگے صحافی موصوف اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ میں ضیاء اور اسکے ساتھی آفیسر کو قائل کرتا رہا کہ جارج حباش کا مکروہ منصوبہ کسی صورت کامیاب نہیں ہونا چاہئے اور اس سلسلے میں میں یاسر عرفات سے بھی بات کر چکا ہوں۔

ایسے شواہد دستیاب ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ برگیڈیر ضیاء الحق اور اسکا ساتھی جنرل نوازش کی سربراہی میں خفیہ طور پر مجاہدین کے ذریعے اسرائیل کے خلاف کاروائیاں بھی کرتے رہے اور یہی وجہ ہے کہ الفتح نے کبھی ان دونوں پاکستانی آفیسرز کے خلاف کوئی منفی بیان تک جاری نہیں کیا۔ 

بعد میں یاسر عرفات کے بہترین دوست بھٹو  نے جنرل ضیاء کو کم از کم دو بار انکی "اردن میں کارکردگی" کی بنیاد پر ترقی بھی دی۔ اگر ضیاءالحق نے سچ مچ فلسطینی مارے ہوتے تو کیا بھٹو ضیاء کے سلسلے میں یاسر عرفات کی ناراضگی مول لیتا؟؟ 

فلسلطینیوں کی اردن میں بطور پناہ گزین داخل ہونے کے بعد اس پر قبضے کی کوشش کے بارے میں اردن ذرائع ایسے شواہد بھی پیش کرتے رہے جن سے ثابت ہوتا تھا کہ ان باغیوں اور جارج حباش کو اسرائیل کنٹرول کرتا رہا لیکن چونکہ جنگجوؤں کی پہچان مشکل تھی اسلیے عربوں نے بھی ان کی حمایت جاری رکھی اور یہ معاملہ بے حد پیچیدہ ہو گیا تھا۔ 

بہرحال ضیاءالحق نے اپنی شاندار جنگی منصوبہ بندی سے نہ صرف اسرائیل کی اس ساری محنت پر پانی پھیر دیا بلکہ اردنی فوج کی تربیت بھی اس انداز میں کی کہ بعد نیں انہوں نے 73ء کی جنگ میں اسرائیل کے دانت کھٹے کر دئیے اور 73ء میں پہلی بار اسرائیل نے اپنے فتح کیے گئے کئی علاقے کھو دئیے۔

مجھے اسرائیل کے اس تبصرے یا بیان کا کوئی مستند حوالہ نہیں ملا کہ "اتنے فلسطینی ہم نے نہیں مارے جتنے ضیاء نے مارے ہیں۔"

لیکن اگر انہوں نے اس قسم کا کوئی تبصرہ کیا بھی تھا تو انکو جنرل ضیاء کے ہاتھوں جو شدید اذیت پہنچی تھی۔ اردن میں ان کی تیار کی گئی دہشتگرد تنظیم کی شکست، اردن کو تباہ کرنے میں ناکامی اور پھر 73ء کی جنگ میں جنرل ضیاء کی تربیت یافتہ فوج کے ہاتھوں شکست۔ 

تب یہودی ذہنیت سے اسی طرح کے کسی زہریلے تبصرے کی امید کی جا سکتی تھی تاکہ اسلام کے ایک بڑے مجاہد کو بدنام کیا جا سکے۔

تحریر شاہد خان

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی