خود کا قاتل افغان

Afghanistan-mai-bad-amni-ka-zimadar-khud-afghan
افغانستان میں بدامنی کا ذمہ دار کون
$ads={1}

افغانیوں کا قاتل خود افغان

پچھلی ایک صدی کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ افغانستان میں کبھی بھی پر امن طریقے ٹرانسفر آف پاور نہیں ہوا۔ 1901 میں امیر عبد الرحمان کی وفات کے بعد سے لے کر ڈاکٹر نجیب تک تمام کے تمام افغان حکمران یا تو قتل ہوئے یا پھر زبردستی جلا وطن کر دیئے گئے۔ امیر عبد الرحمان کے بیٹے امیر حبیب اللہ خان کو شکار کے دوران اس کے خیمے میں قتل کروایا گیا۔ اکثریت اس قتل کا الزام امیر حبیب اللہ خان کے بیٹے شاہ امان اللہ خان پر لگاتے ہیں۔ اس کے بعد حبیب اللہ کا بھائی نصر اللہ خان کو بادشاہ بنایا گیا۔ چھ دن کے بعد نصراللہ خان کی غیر موجودگی میں امان اللہ خان نے کابل پر قبضہ کیا اور خود بادشاہ بن بیٹھا۔ نصراللہ خان نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔ امان اللہ خان نے قرآن پر قسم کھا کر نصراللہ خان کو کہا کہ کابل آؤ میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا۔ پھر اپنے حلف سے رو گردانی کرکے اس نے حبیب اللہ خان کے قتل کے الزام میں پہلے گرفتار کیا بعد میں قتل کروایا۔ امان اللہ خان کو بچہ سقہ نے کابل سے بے دخل کیا۔ جو پھر جلا وطن ہو کر اٹلی جا پہنچا۔ بچہ سقہ کو شکست دے کر نادرشاہ نے اسے پھانسی دی۔ نادر شاہ کو ایک عام افغانی نے قتل کیا۔ نادرشاہ کے بعد اس کا نوجوان بیٹا ظاہر شاہ تخت نشین ہوا۔

اس کی غیر موجودگی میں اس کے کزن اور بہنوئی داؤد خان نے 1973 میں ظاہر شاہ کے تخت پر قبضہ کیا۔ 1978 کے انقلاب ثور کے نتیجے میں افغانی کمیونسٹ پارٹی پی ڈی پی اے نے داؤد خان کو اس کی فیملی سمیت قتل کیا۔ اس کے بعد ترکئی صدر بنا۔ ترکئی کو اسکے اپنے ساتھی حفیظ اللہ امین نے قتل کیا۔ حفیظ اللہ امین کو روسیوں نے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ پہلے اسے حفاظت کے بہانے سے محفوظ صدارتی محل ارگ سے کابل کے مضافات میں غیر آباد اور نسبتا غیر محفوظ محل تاج بیگ منتقل کیا۔ وہاں روسیوں نے اسے اس کے چھوٹے بچے سمیت قتل کیا۔ قتل کرنے کے بعد روسیوں نے ببرک کارمل کو لا کر تخت پر بٹھایا۔ ببرک کارمل کو روسیوں نے زبردستی جلا وطن کیا۔

اس کی جگہ نجیب کو انسٹال کیا۔ نجیب نے 1992 میں شدید خانہ جنگی کے باعث استعفی دیا۔ جسے 1996 میں تال۔بان نے قتل کرکے اس کی لاش ارگ کے باہر لٹکا دی۔ نجیب کے قتل کا الزام پاکستان پر لگایا جاتا ہے۔ پاکستان نجیب کو ہر قیمت پر کرسی سے ہٹانا چاہتا تھا لیکن یہ بھی یاد رہے کہ استعفے کے بعد جب نجیب افغانستان سے یو این کے جہاز میں بھاگ نکلنے کیلئے جا رہا تھا تو ازبک جنگجو اور افغانستان کے موجودہ مارشل دوستم نے اسے جانے نہیں دیا اور اسے ائیر پورٹ کے باہر سے واپس بھیج دیا تھا۔ اس کھیل میں نجیب کے اپنے وزیر دوستم کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔


اس کے بعد جب نجیب نے یو این ہیڈکوراٹر میں پناہ لی تو سب سے پہلے انڈین ایمبیسی سے پناہ کی درخواست کی گئی۔ جس کے جواب میں انڈین ایمبیسی نے انڈیا رابطہ کیا۔ انڈیا نے پناہ دینے سے معذرت کر لی۔ اس کے بعد پاکستان کی ایمبیسی نے اپنے سفارت خانے میں پناہ دینے اور باحفاظت انحلاء کی پیشکش کی۔ جو نجیب نے رد کر دی تھی۔ 

 افغانستان بذات خود ہمیشہ سے اندرونی سیاست اور نسلی گروہی رقابت میں مبتلا رہا ہے۔ ہر نسلی اکائی کا اپنا ہیرو ہے جس سے  دوسرا نسلی گروہ نفرت کرتا ہے۔ مثال کے طور پر افغانستان کے بانی احمد شاہ ابدالی کو تاجک نادر شاہ افشار کا لونڈا کہتے ہیں۔ جبکہ پشتونوں کے نزدیک وہ عظیم ہیرو کا مقام رکھتا ہے۔ پشتون حبیب اللہ کلکانی عرف بچہ سقہ کو ڈکیت کہتے ہیں جبکہ تاجکوں کے نزدیک وہ رابن ہڈ تھا۔   بچہ سقہ کی قبر دو ہزار سولہ تک ایک پہاڑ کے دامن میں غیر معروف جگہ پر تھی۔ 

تاجک سول سائٹس کی جانب سے دو ہزار سولہ ایک مہم چلائی گئی جس کے نتیجے بچہ سقہ کی باقیات کو ایک مشہور پہاڑ کی چوٹی پر منتقل کرکے اس کا مزار بنا دیا گیا۔ اس عمل کے دوران پشتونوں اور تاجکوں کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی جس میں غالبا ایک دو بندے قتل ہوئے اور چند زخمی بھی ہوئے تھے۔ اسی طرح احمد شاہ مسعود پشتونوں کے نزدیک نفرت کا استعارہ ہے جبکہ تاجک اس کے نام پر قربان ہونے کیلئے تیار ہیں۔ ازبکوں میں رشید دوستم کو ایسا ہی مقام حاصل ہے۔ پاکستان کے بغض میں مبتلا افغانی اور فکری غلاظت سے  آلودہ چند پاکستانی جو کہتے ہیں کہ پاکستان ایک غیر فطری ریاست ہے جبکہ حقیقت میں غیر فطری ریاست پاکستان نہیں بلکہ افغانستان ہے۔ افغانستان میں بسنے والی نسلی اکائیاں ہمیشہ ایک دوسرے مشکوک نظروں سے دیکھتی رہی ہیں اور آپس میں لڑتے رہے ہیں۔  

آپ خود اندازہ لگا لیں کہ افغانستان سے دشمنی پاکستان نے کی یا خود افغانیوں نے کی۔ پاکستان اگر نہ ہوتا، افغانستان کا حال تب بھی یہی ہونا تھا

جب پاکستان نہیں تھا تب بھی افغانی ایک دوسرے سے لڑتے رہتے تھے۔ پاکستان معرض وجود میں آیا تب بھی یہ باہم دست و گریبان رہے ہیں۔  

مرز غالب نے کیا خوب کہا تھا کہ 

ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

تحریر : شاہد خان


یہ بھی دیکھیں:-
افغانستان، جلال آباد میں پاکستانی ویزہ حاصل کرنے کے لیے افغانیوں کی جان کی بازی
جمہوریت کے نام پر اقتدار کے بھوکے جمہوری بھیڑیے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی